ہے دھوپ چھاؤں کی مانند زندگی میری
ثبات غم کو نہیں عارضی خوشی میری
اسی کو اب مری ہر بات زہر لگتی ہے
کبھی پسند نہ تھی جس کو خامشی میری
تری نظر کا سہارا بڑا سہارا تھا
جہاں میں کر نہ سکا کوئی ہمسری میری
کبھی گناہ کبھی حسرت گناہ کا غم
تمام کرب مسلسل ہے زندگی میری
میں دل کا حال اسی کو سناتا رہتا ہوں
چھپی نہ جس سے کوئی بات ان کہی میری
میں مثل کرمک شب تاب جلتا رہتا ہوں
کسی کے کام تو آئے گی روشنی میری
جو میرے خدشۂ فردا پہ خندہ زن ہیں خلشؔ
مری دعا ہے ملے ان کو آ گئی میری
غزل
ہے دھوپ چھاؤں کی مانند زندگی میری
خلش کلکتوی