ہے درد میں ڈوبی ہوئی تحریر کی آواز
وجدان کو چھو لیتی ہے تصویر کی آواز
تنہائی میں آنکھوں سے نکل آتے ہیں آنسو
گویا ہے فضا میں کسی دلگیر کی آواز
دیوانۂ ہستی کے لیے ایک ہیں دونوں
پازیب کی جھنکار کہ شمشیر کی آواز
یاد آیا ہے جب سانحہ زندان بلا کا
ابھری در و دیوار سے زنجیر کی آواز
لگ جاتی ہے جب راہ پر اسرار میں ٹھوکر
ہم اس کو سمجھ لیتے ہیں تقدیر کی آواز
تخریب پسندوں نے وہ طوفان اٹھایا
اس شور میں کھو جائے نہ تعمیر کی آواز
نغموں کا اثر ہوتا ہے ارباب طرب پر
ناظرؔ کو رلا دیتی ہے زنجیر کی آواز
غزل
ہے درد میں ڈوبی ہوئی تحریر کی آواز
ناظر الحسینی