EN हिंदी
ہے برہم پھر مزاج ان کا دل ناکام کیا ہوگا | شیح شیری
hai barham phir mizaj un ka dil-e-nakaam kya hoga

غزل

ہے برہم پھر مزاج ان کا دل ناکام کیا ہوگا

کشفی لکھنؤی

;

ہے برہم پھر مزاج ان کا دل ناکام کیا ہوگا
یہی صورت رہی تو عشق کا انجام کیا ہوگا

خلش دل میں جگر میں درد لب پر مہر خاموشی
یہ صورت ہے تو پھر مجھ کو بھلا آرام کیا ہوگا

یہ بزم ناز ہے اے دل یہاں بہتر ہے خاموشی
سنا کر ان کو اپنا قصۂ آلام کیا ہوگا

یہی ہے زہد کا عالم تو پھر اے حضرت ناصح
شراب حوض کوثر کا چھلکتا جام کیا ہوگا

ابھی سے آنکھ میں آنسو ہیں لب پر آہ دل میں درد
یہ آغاز محبت ہے تو پھر انجام کیا ہوگا

خدارا یہ بھی سوچو اے چمن کے چھوڑنے والو
ہیں جو صحن‌ چمن میں ان کا اب انجام کیا ہوگا

کوئی بدنام ہو جائے تو اس کو بھی بہت سمجھو
ہے یہ دوری خودی اس میں کسی کا نام کیا ہوگا

ابھی تو شب ہے آؤ پیار کی باتیں کریں ہم تم
ابھی سے کیوں یہ سوچیں صبح کا پیغام کیا ہوگا

جدھر دیکھو ادھر ظلمت نظر آتی ہے اے کشفیؔ
سحر کا رنگ ہے جب یہ تو رنگ شام کیا ہوگا