EN हिंदी
ہے باعث سکون سخن ور تمہارا نام | شیح شیری
hai bais-e-sukun suKHan-war tumhaara nam

غزل

ہے باعث سکون سخن ور تمہارا نام

سحر محمود

;

ہے باعث سکون سخن ور تمہارا نام
لیتا ہے اس لیے وہ برابر تمہارا نام

مجھ کو یقیں ہے تم بھی بہت مضطرب رہے
جب بھی لیا ہے میں نے تڑپ کر تمہارا نام

اٹھتا ہے جب تباہیٔ دل کا کبھی سوال
آ آ کے ٹھہر جاتا ہے لب پر تمہارا نام

میرے تمام شعروں میں اک جاں سی پڑ گئی
لکھی غزل جو ذہن میں رکھ کر تمہارا نام

کیسے مٹائے موج حوادث تمہی کہو
ہے نقش ذہن و دل پہ گل تر تمہارا نام

تہذیب کے خلاف ہے اظہار عاشقی
آتا نہیں ہے اس لیے لب پر تمہارا نام

یہ صرف والہانہ محبت کی بات ہے
میری سخن وری کا ہے محور تمہارا نام

حد درجہ جاں گداز ہیں یادوں کے سلسلے
کیسے سحرؔ بھلائے گا دل بر تمہارا نام