ہے باعث سکون سخن ور تمہارا نام
لیتا ہے اس لیے وہ برابر تمہارا نام
مجھ کو یقیں ہے تم بھی بہت مضطرب رہے
جب بھی لیا ہے میں نے تڑپ کر تمہارا نام
اٹھتا ہے جب تباہیٔ دل کا کبھی سوال
آ آ کے ٹھہر جاتا ہے لب پر تمہارا نام
میرے تمام شعروں میں اک جاں سی پڑ گئی
لکھی غزل جو ذہن میں رکھ کر تمہارا نام
کیسے مٹائے موج حوادث تمہی کہو
ہے نقش ذہن و دل پہ گل تر تمہارا نام
تہذیب کے خلاف ہے اظہار عاشقی
آتا نہیں ہے اس لیے لب پر تمہارا نام
یہ صرف والہانہ محبت کی بات ہے
میری سخن وری کا ہے محور تمہارا نام
حد درجہ جاں گداز ہیں یادوں کے سلسلے
کیسے سحرؔ بھلائے گا دل بر تمہارا نام

غزل
ہے باعث سکون سخن ور تمہارا نام
سحر محمود