EN हिंदी
ہے انکھڑیوں میں نیند تو اک کام کیجیے | شیح شیری
hai ankhDiyon mein nind to ek kaam kijiye

غزل

ہے انکھڑیوں میں نیند تو اک کام کیجیے

مرزا حسین علی محنت

;

ہے انکھڑیوں میں نیند تو اک کام کیجیے
یہ بھی تو گھر ہے آپ کا آرام کیجیے

یہ ضعف ہے کہ پہنچے ہے تا صبح رخ تلک
گر زلف پر نگاہ سر شام کیجیے

کل میں جو یہ کہا کہ کسی کے علم سے آہ
مر جائیے بس اور نہ کچھ کام کیجیے

تو وہ سنا کے مجھ کو یہ کہتا ہے ایک سے
کیا لطف ہے کسی کو جو بد نام کیجیے

اس زندگی سے کھینچیے محنتؔ گر اپنا ہاتھ
پھیلا کے پاؤں ذوق سے آرام کیجیے