ہے انکھڑیوں میں نیند تو اک کام کیجیے
یہ بھی تو گھر ہے آپ کا آرام کیجیے
یہ ضعف ہے کہ پہنچے ہے تا صبح رخ تلک
گر زلف پر نگاہ سر شام کیجیے
کل میں جو یہ کہا کہ کسی کے علم سے آہ
مر جائیے بس اور نہ کچھ کام کیجیے
تو وہ سنا کے مجھ کو یہ کہتا ہے ایک سے
کیا لطف ہے کسی کو جو بد نام کیجیے
اس زندگی سے کھینچیے محنتؔ گر اپنا ہاتھ
پھیلا کے پاؤں ذوق سے آرام کیجیے

غزل
ہے انکھڑیوں میں نیند تو اک کام کیجیے
مرزا حسین علی محنت