ہے اگرچہ شہر میں اپنی شناسائی بہت
پھر بھی رہتا ہے ہمیں احساس تنہائی بہت
اب یہ سوچا ہے کہ اپنی ذات میں سمٹے رہیں
ہم نے کر کے دیکھ لی سب سے شناسائی بہت
منہ چھپا کر آستیں میں دیر تک روتے رہے
رات ڈھلتی چاندنی میں اس کی یاد آئی بہت
قطرہ قطرہ اشک غم آنکھوں سے آخر بہہ گئے
ہم نے پلکوں کی انہیں زنجیر پہنائی بہت
اپنا سایہ بھی جدا لگتا ہے اپنی ذات سے
ہم نے اس سے دل لگانے کی سزا پائی بہت
اب تو سیل درد تھم جائے سکوں دل کو ملے
زخم دل میں آ چکی ہے اب تو گہرائی بہت
شام کے سایوں کی صورت پھیلتے جاتے ہیں ہم
لگ رہی تنگ ہم کو گھر کی انگنائی بہت
آئنہ بن کے وہ صورت سامنے جب آ گئی
عکس اپنا دیکھ کر مجھ کو ہنسی آئی بہت
وہ سحر تاریکیوں میں آج بھی روپوش ہے
جس کے غم میں کھو چکی آنکھوں کی بینائی بہت
میں تو جھونکا تھا اسیر دام کیا ہوتا کلیمؔ
اس نے زلفوں کی مجھے زنجیر پہنائی بہت

غزل
ہے اگرچہ شہر میں اپنی شناسائی بہت
کلیم عثمانی