ہے آرزو کہ اور تو کیا خود خدا نہ ہو
جب وہ ہو میرے پاس کوئی دوسرا نہ ہو
دیوار سے کہی تھی جو اس تک پہنچ گئی
اس بات پر ہی مجھ سے کہیں وہ خفا نہ ہو
آہٹ بھی کوئی پا نہ سکے گھر سے یوں نکل
ہر سمت دیکھ بھال کوئی دیکھتا نہ ہو
سایہ بھی ساتھ لے کے نہ جا کوئے یار میں
ہم زاد بھی سفر میں کہیں رونما نہ ہو
وہ راہ کر تلاش کہ جو سنگلاخ ہو
ڈھونڈے کوئی تو تیرا کہیں نقش پا نہ ہو
ممکن کہاں کہ آخر شب در پہ ہو کوئی
دستک سی ہو رہی ہے جو باہر ہوا نہ ہو
غزل
ہے آرزو کہ اور تو کیا خود خدا نہ ہو
منظور عارف