EN हिंदी
ہے آرزو کہ اپنا سراپا دکھائی دے | شیح شیری
hai aarzu ki apna sarapa dikhai de

غزل

ہے آرزو کہ اپنا سراپا دکھائی دے

سلیم شاہد

;

ہے آرزو کہ اپنا سراپا دکھائی دے
آئینہ دیکھتا ہوں کہ چہرہ دکھائی دے

مصروف اس قدر تھے کہ ساون گزر گیا
حسرت رہی کہ ابر برستا دکھائی دے

خاموش ہوں کہ بولنا تہمت ہے اس جگہ
جب دیکھنا نہیں ہے تو پھر کیا دکھائی دے

سوچا تھا بس کہ ذہن میں تصویر بن گئی
اب آنکھ کہہ رہی ہے کہ چہرہ دکھائی دے

اب دھول کی بجائے دھواں ہے فضاؤں میں
خلقت پکارتی ہے کہ صحرا دکھائی دے

چہروں کا رنگ زرد ہوا دھوپ کی طرح
شاہدؔ کہیں تو ابر کا ٹکڑا دکھائی دے