ہے آرزو کہ اپنا سراپا دکھائی دے
آئینہ دیکھتا ہوں کہ چہرہ دکھائی دے
مصروف اس قدر تھے کہ ساون گزر گیا
حسرت رہی کہ ابر برستا دکھائی دے
خاموش ہوں کہ بولنا تہمت ہے اس جگہ
جب دیکھنا نہیں ہے تو پھر کیا دکھائی دے
سوچا تھا بس کہ ذہن میں تصویر بن گئی
اب آنکھ کہہ رہی ہے کہ چہرہ دکھائی دے
اب دھول کی بجائے دھواں ہے فضاؤں میں
خلقت پکارتی ہے کہ صحرا دکھائی دے
چہروں کا رنگ زرد ہوا دھوپ کی طرح
شاہدؔ کہیں تو ابر کا ٹکڑا دکھائی دے

غزل
ہے آرزو کہ اپنا سراپا دکھائی دے
سلیم شاہد