ہے آئینے کے مقابل جو ہو بہ ہو کیا ہے
یہ میرا روپ نہیں ہے تو جلوہ رو کیا ہے
مرے بدن کی رگوں میں شراب کی صورت
جو سر پٹکتا گزرتا ہے جو بہ جو کیا ہے
منافرت کے خسارے میں خوش خرام رہے
سرشت آدم خاکی میں خو بہ خو کیا ہے
مگن ہے اور کسی سوچ میں مرا وجدان
میں اپنے آپ سے مخفی ہوا ہوں تو کیا ہے
ہتک ہے بادہ کشوں کی بڑھائیں دست شراب
نظر سے اٹھ نہیں پائے تو پھر سبو کیا ہے
ہمیں تو کوئی تفرق نظر نہیں آتا
سراب مہر تمنا یا ماہ رو کیا ہے
تمہارا نام ہے اشرفؔ سخن طراز مگر
تمہیں کہو کہ یہ انداز گفتگو کیا ہے
غزل
ہے آئینے کے مقابل جو ہو بہ ہو کیا ہے
اشرف علی اشرف