EN हिंदी
ہے آفتاب اور مرے دل کا داغ ایک | شیح شیری
hai aaftab aur mere dil ka dagh ek

غزل

ہے آفتاب اور مرے دل کا داغ ایک

جوشش عظیم آبادی

;

ہے آفتاب اور مرے دل کا داغ ایک
دیکھا تو بزم عشق میں ہے یہ چراغ ایک

وحدت ہی سے ظہور ہے کثرت کا دیکھ لے
ہیں پھول سو طرح کے ولیکن ہے باغ ایک

جس دن سے وہ خیال میں تیری کمر کے ہے
عنقا کا اور دل کا مرے ہے سراغ ایک

انصاف سے بعید ہے ساقیٔ روزگار
اوروں کو جام سیکڑوں مجھ کو ایاغ ایک

لائیں کہاں سے تیری سی فکر بلند ہم
ؔجوشش نہیں ہر ایک کا دل اور دماغ ایک