EN हिंदी
ہفت افلاک سے آگے کہیں کچھ ہو تو کہوں | شیح شیری
haft aflak se aage kahin kuchh ho to kahun

غزل

ہفت افلاک سے آگے کہیں کچھ ہو تو کہوں

رومانہ رومی

;

ہفت افلاک سے آگے کہیں کچھ ہو تو کہوں
حد ادراک سے آگے کہیں کچھ ہو تو کہوں

میں نے جس ذات کو لبیک کہا ہے اس کے
جلوۂ پاک سے آگے کہیں کچھ ہو تو کہوں

جس پہ پیوند ہی پیوند نظر آتے تھے
ایسی پوشاک سے آگے کہیں کچھ ہو تو کہوں

مجھ سے پوچھے کوئی انسان کہاں تک پہنچا
عزم بے باک سے آگے کہیں کچھ ہو تو کہوں

ہاں مری زیست کا حاصل غم دوراں تو نہیں
چشم نمناک سے آگے کہیں کچھ ہو تو کہوں

جس طرف دیکھیے ویرانی ہی ویرانی ہے
خس و خاشاک سے آگے کہیں کچھ ہو تو کہوں

ہر طرف ہم وطنوں خون خرابے کے سوا
چشم سفاک سے آگے کہیں کچھ ہو تو کہوں

عالم خاک مری ذات کا ہر ذرہ ہے
عالم خاک سے آگے کہیں کچھ ہو تو کہوں

میرے افلاک سے آگے تو فقط ہوں میں ہی
میرے افلاک سے آگے کہیں کچھ ہو تو کہوں

جاں کا ہے اپنی جگہ ایک تصور رومیؔ
جسد خاک سے آگے کہیں کچھ ہو تو کہوں