حد نگاہ شام کا منظر دھواں دھواں
چھانے لگا ہے ذہن کے اندر دھواں دھواں
گرتی ہوئی پھوار بناتی ہوئی دھنک
کچھ دیر بعد رہ گئی ہو کر دھواں دھواں
لہروں سے کھیلتا ہوا کرنوں کا اک ہجوم
اٹھتا ہوا سا دور افق پر دھواں دھواں
اڑتے ہوئے پرند خلاؤں میں گم ہوئے
پھر رہ گیا نگاہ میں جم کر دھواں دھواں
کانوں میں کشتیوں کی صدا گونجنے لگی
پھر سامنے ہے ایک سمندر دھواں دھواں
غزل
حد نگاہ شام کا منظر دھواں دھواں
اقبال انجم