EN हिंदी
حد فاصل تو فقط درد کا صحرا نکلی | شیح شیری
hadd-e-fasil to faqat dard ka sahra nikli

غزل

حد فاصل تو فقط درد کا صحرا نکلی

قیصر خالد

;

حد فاصل تو فقط درد کا صحرا نکلی
چشم افسردگیٔ خشک ہی دریا نکلی

سو بہ سو بھٹکے نگاہوں میں لیے اس کی سی
ایک صورت بھی کسی در نہ دریچہ نکلی

ہم کہ موہوم سی حسرت بھی لیے پھرتے ہیں
کتنے ہیں جن کی ہر اک خواہش بے جا نکلی

اک ذرا ٹھیس لگی ٹوٹ گئی ہمت جاں
آہنی جس کو سمجھتے تھے وہ شیشہ نکلی

چیر کر پردۂ ظلمت کو ندائے غیبی
روشنی بانٹنے دنیا کو ہمیشہ نکلی

روز و شب اک نئی امید نئی سی الجھن
آزمائش جسے سمجھے تھے نتیجہ نکلی

نا مرادی کا ہے کہرہ سا دل و ذہن پہ وہ
کوئی خواہش سی تو نکلی ہے مگر کیا نکلی

عمر بھر ساتھ رہے یاد تری دکھ ہو کہ سکھ
کیا سمجھتے تھے اسے ہم یہ مگر کیا نکلی

قریۂ‌ زر میں ملا یہ بھی نظارہ ہر سو
دھوپ رنگوں کی لیے دختر حوا نکلی

ڈر چٹکنے کی خوشی پر ہی بکھرنے کا ہوا
بوئے گل پھوٹ کے جب غنچہ بہ غنچہ نکلی

خواب یوں بھی کبھی تعبیر میں اپنے نہ ڈھلے
زندگی اپنی کسی زیست کا حصہ نکلی

کیا سبب ہے کہ تلا ہے تو مٹانے پہ ہمیں
آسماں ایک بھی کیا اپنی تمنا نکلی

وقت کا کوہ گراں کاٹ کے فرہاد بنوں
کامرانی اسی رستے سے ہمیشہ نکلی