حد امکاں سے آگے اپنی حیرانی نہیں جاتی
نہیں جاتی نظر کی پا بہ جولانی نہیں جاتی
لب خاموش ساحل سے سکوں کا درس ملتا ہے
مگر امواج دریا کی پریشانی نہیں جاتی
جہاں پہلے کبھی سب گوش بر آواز رہتے تھے
وہاں بھی اب مری آواز پہچانی نہیں جاتی
حقیقت کچھ تو اپنی آبرو کا پاس ہو تجھ کو
ہزاروں پیرہن ہیں پھر بھی عریانی نہیں جاتی
نہیں تعظیم کے لائق نہیں تکریم کے قابل
وہ در جس کی طرف خود کھنچ کے پیشانی نہیں جاتی
سکوں ہوتا تو ہے پھر بھی سکوں حاصل نہیں ہوتا
کہ جانے کی طرح اپنی پریشانی نہیں جاتی
غزل
حد امکاں سے آگے اپنی حیرانی نہیں جاتی
منور لکھنوی