EN हिंदी
حبس طاری ہے مسلسل کیسا | شیح شیری
habs tari hai musalsal kaisa

غزل

حبس طاری ہے مسلسل کیسا

شاعر لکھنوی

;

حبس طاری ہے مسلسل کیسا
اب کے برسا ہے یہ بادل کیسا

جس سے احساس کی صدیاں گزریں
تھا جدائی کا وہ اک پل کیسا

لے کے نذرانۂ جاں کون آیا
جشن سا ہے سر مقتل کیسا

تیری توصیف سے خالی ہو اگر
لفظ ہو جاتا ہے مہمل کیسا

وہی دن رات محبت کا جنوں
دل بھی کم بخت ہے پاگل کیسا

اس نے تو لب ابھی کھولے بھی نہیں
شور نغمہ ہے مسلسل کیسا

ان کے آنے کی خبر سے شاعرؔ
دل ہوا جاتا ہے بوجھل کیسا