حبس کے عالم میں محبس کی فضا بھی کم نہیں
روزن دیوار زنداں کی ہوا بھی کم نہیں
شورش زنجیر پا پر ہیں اگر پابندیاں
ہلکے ہلکے جنبش زنجیر پا بھی کم نہیں
گر سر مقتل نہ ہو ذکر بتاں کا حوصلہ
حجرۂ تاریک میں یاد خدا بھی کم نہیں
رہرو شب کیوں چراغ مہ سے دریوزہ گری
رات اندھیری ہو تو جگنو کی ضیا بھی کم نہیں
لاکھ محکم ہو حصار مرحبی و عنتری
غازیوں کا بازوئے خیبر کشا بھی کم نہیں
عہد گل سے سازش باد خزاں بھی کم نہ تھی
شاخ گل سے سوزش برق بلا بھی کم نہیں
کیا ہوا گر واعظ و ملا کے دل ہیں بے چراغ
گوشۂ مسجد میں ننھا سا دیا بھی کم نہیں
لذت بادہ ہے جاں پرور مگر اے اہل ذوق
زہر اشک و قطرۂ خوں کا مزا بھی کم نہیں
غزل
حبس کے عالم میں محبس کی فضا بھی کم نہیں
رئیس امروہوی