حبس دروں پہ جسم گراں بار سنگ تھا
وحشت پہ میری عرصۂ آفاق تنگ تھا
کچھ دور تک سحاب رفاقت رہا رفیق
پھر اہتمام بارش تیر و تفنگ تھا
سہمی ہوئی فضائے غزالاں کے رو بہ رو
جنگل تھا قہقہے تھے خدا تھا میں دنگ تھا
اب شہر جستجو میں ترے بعد کچھ نہیں
آبادئ بدن میں جو دل تھا ملنگ تھا
جی یہ کرے ہے آج کہ تنہا جئیں مریں
کب میرے اضطراب کا یہ رنگ ڈھنگ تھا
ہر شام مضمحل سی سویرا بجھا بجھا
تجھ سے پرے جو دیکھا یہی ایک رنگ تھا
غزل
حبس دروں پہ جسم گراں بار سنگ تھا
اکرم نقاش