ہاتھوں سے میرے چھین کر دل کا مآل لے گئی
جانے کہاں کہاں مجھے گردش حال لے گئی
کام نہ کوئی آ سکا لیکن یہ آنکھ کی نمی
سلسلۂ غبار سے مجھ کو نکال لے گئی
موج ہوس کے دوش پر کوہ سیاہ تک گیا
مجھ کو ہوائے شوق پھر تا بہ زوال لے گئی
انگلیاں توڑے کوئی کر لے زبان سنگ کی
دیکھیے سبقت شرف صوت بلال لے گئی
تیز ہوا اڑا چلے جس طرح برگ زرد کو
اس کی ہنسی بھی اپنے ساتھ میرا سوال لے گئی
سامنے بحر بیکراں قیدی یک جزیرہ میں
پھر بھی میں اس سے جا ملا موج خیال لے گئی
غزل
ہاتھوں سے میرے چھین کر دل کا مآل لے گئی
علیم افسر