EN हिंदी
ہاتھوں کو کشکول بنائے بیٹھے ہیں | شیح شیری
hathon ko kashkol banae baiThe hain

غزل

ہاتھوں کو کشکول بنائے بیٹھے ہیں

ندیم فرخ

;

ہاتھوں کو کشکول بنائے بیٹھے ہیں
بھوکے بچے غول بنائے بیٹھے ہیں

آپ حسیں پیالے سے دھوکہ مت کھانا
وہ زہریلا گھول بنائے بیٹھے ہیں

وہ شعلوں کی بارش کرنے والا ہے
ہم کاغذ کے خول بنائے بیٹھے ہیں

اس کی کوشش بکنے پر مجبور ہوں ہم
ہم خود کو انمول بنائے بیٹھے ہیں

دشمن آخر دستاروں تک آ پہنچا
ہم رشتوں میں جھول بنائے بیٹھے ہیں