ہاتھوں کو کشکول بنائے بیٹھے ہیں
بھوکے بچے غول بنائے بیٹھے ہیں
آپ حسیں پیالے سے دھوکہ مت کھانا
وہ زہریلا گھول بنائے بیٹھے ہیں
وہ شعلوں کی بارش کرنے والا ہے
ہم کاغذ کے خول بنائے بیٹھے ہیں
اس کی کوشش بکنے پر مجبور ہوں ہم
ہم خود کو انمول بنائے بیٹھے ہیں
دشمن آخر دستاروں تک آ پہنچا
ہم رشتوں میں جھول بنائے بیٹھے ہیں
غزل
ہاتھوں کو کشکول بنائے بیٹھے ہیں
ندیم فرخ