ہاتھ سے کچھ نہ ترے اے مہ کنعاں ہوگا
ہاتھ جو ہوگا تو مری موت کا ساماں ہوگا
ساقیا ہجر میں مے خانہ بیاباں ہوگا
دور ساغر بھی رم چشم غزالاں ہوگا
اے جنوں پھر مجھے خوش آنے لگی عریانی
اب نہ دامن ہی رہے گا نہ گریباں ہوگا
پھر چلیں گے ترا قد دیکھ کے گلزاروں میں
پھر ہر اک سرو و سمن سرو چراغاں ہوگا
گھر میں دل پھر مرا گھبرانے لگا آپ سے آپ
اے جنوں پھر یہ مکاں خانۂ زنداں ہوگا
پھر خوش آتی ہے مرے دل کو شب ماہ کی سیر
عشق پھر چاند سے مکھڑے کا دو چنداں ہوگا
ان دنوں پھر تجھے گویاؔ جو ہے چپکی سی لگی
پھر ارادہ طرف ملک خموشاں ہوگا
غزل
ہاتھ سے کچھ نہ ترے اے مہ کنعاں ہوگا
گویا فقیر محمد