EN हिंदी
ہاتھ سے آخر چھوٹ پڑا پتھر جو اٹھایا تھا | شیح شیری
hath se aaKHir chhuT paDa patthar jo uThaya tha

غزل

ہاتھ سے آخر چھوٹ پڑا پتھر جو اٹھایا تھا

رئیس فراز

;

ہاتھ سے آخر چھوٹ پڑا پتھر جو اٹھایا تھا
کیا کرتا مجرم بھی تو خود اپنا سایا تھا

ایسا ہوتا کاش کہیں کچھ رنگ بھی مل جاتے
اس نے میرے خوابوں کا خاکہ تو بنایا تھا

اب تو بھی باہر آ جا یوں جسم میں چھپنا کیا
پردہ ہی کرنا تھا تو کیوں مجھ کو بلایا تھا

آج کے موسم سے بے سدھ کچھ لوگ کفن چہرہ
اب تک سہمے بیٹھے ہیں طوفان کل آیا تھا

جی چاہے تو اور بھی رک لے پلکوں کی چھاؤں میں
میں نے تو تجھ کو وقت کا بس احساس دلایا تھا

روز سویرے ویرانہ بچتا ہے فرازؔ آخر
ہم نے رات بھی خوابوں میں اک شہر سجایا تھا