EN हिंदी
ہاتھ پھر بڑھ رہا ہے سوئے جام | شیح شیری
hath phir baDh raha hai su-e-jam

غزل

ہاتھ پھر بڑھ رہا ہے سوئے جام

جاوید کمال رامپوری

;

ہاتھ پھر بڑھ رہا ہے سوئے جام
زندگی کی اداسیوں کو سلام

کون جانے یہ کس کی زلفوں میں
ہو گئے ہیں اسیر صبح و شام

میں سمجھتا ہوں پھر بہار آئی
کوئی لیتا ہے جب خزاں کا نام

کوئی اہل جنوں کو سمجھا دے
آگہی تو نہیں ہے کوئی دام

ساتھ دو گام تو چلو ورنہ
بھول جائے گی گردش ایام