ہاتھ پر ہاتھ رکھ کے کیوں بیٹھوں
دھوپ آئے گی کوئی سایہ بنوں
پاؤں زنجیر چاہتے ہیں اب
جتنی جلدی ہو اپنے گھر لوٹوں
ہاں یہ رت سازگار ہے مجھ کو
میں اسی رت میں خشک ہو جاؤں
ایک نشہ ہے یہ اداسی بھی
اور میں اس نشے کا عادی ہوں
اس نے شادی کا کارڈ بھیجا ہے
سوچتا ہوں یہ امتحاں دے دوں
غزل
ہاتھ پر ہاتھ رکھ کے کیوں بیٹھوں
وکاس شرما راز