EN हिंदी
ہاتھ پر ہاتھ رکھ کے کیوں بیٹھوں | شیح شیری
hath par hath rakh ke kyun baiThun

غزل

ہاتھ پر ہاتھ رکھ کے کیوں بیٹھوں

وکاس شرما راز

;

ہاتھ پر ہاتھ رکھ کے کیوں بیٹھوں
دھوپ آئے گی کوئی سایہ بنوں

پاؤں زنجیر چاہتے ہیں اب
جتنی جلدی ہو اپنے گھر لوٹوں

ہاں یہ رت سازگار ہے مجھ کو
میں اسی رت میں خشک ہو جاؤں

ایک نشہ ہے یہ اداسی بھی
اور میں اس نشے کا عادی ہوں

اس نے شادی کا کارڈ بھیجا ہے
سوچتا ہوں یہ امتحاں دے دوں