ہاتھ میں ماہتاب ہو جیسے
کھلی آنکھوں میں خواب ہو جیسے
میرے ہمسائے میں جو رہتا ہے
مجھ سا خانہ خراب ہو جیسے
چاند نکلا تو اس قرینے سے
اک حسیں بے حجاب ہو جیسے
ہم سفر ڈھونڈنے کو نکلا ہوں
موسم انتخاب ہو جیسے
یوں گناہوں کی یاد آتی ہے
آج یوم حساب ہو جیسے
آنکھ مدت سے تر نہیں عابدؔ
خشک اپنا چناب ہو جیسے
غزل
ہاتھ میں ماہتاب ہو جیسے
عابد ودود