ہاتھ میں جب تک قلم تھا تجربے لکھتے رہے
ہم زمیں پر آسماں کے مشورے لکھتے رہے
عمر کتنی کٹ گئی ہجرت میں سوچا ہی نہیں
چہرے کی ساری لکیریں آئنہ لکھتے رہے
موسموں کی دستکیں چیخوں میں دب کر رہ گئیں
گیت کی فرمائشیں تھیں مرثیے لکھتے رہے
تم نہ پڑھنا وہ سفر نامہ جو نوک خار پر
کو بہ کو صحرا بہ صحرا آبلے لکھتے رہے
حادثے جن پر مورخ کی زباں کھلتی نہیں
شہر کی دیوار پر ہم خون سے لکھتے رہے
کارنامہ اور کیا کرتے یہ نقادان عصر
نوک خنجر سے غزل پر حاشیے لکھتے رہے
کیفیت شاخ نہال غم کی عشرتؔ صبح و شام
آتے جاتے موسموں کے قافلے لکھتے رہے
غزل
ہاتھ میں جب تک قلم تھا تجربے لکھتے رہے
عشرت قادری