ہاتھ لہراتا رہا وہ بیٹھ کر کھڑکی کے ساتھ
میں اکیلا دور تک بھاگا گیا گاڑی کے ساتھ
ہو گیا ہے یہ مکاں خالی صداؤں سے مگر
ذہن اب تک گونجتا ہے ریل کی سیٹی کے ساتھ
مدتیں جس کو لگی تھیں میرے پاس آتے ہوئے
ہو گیا مجھ سے جدا وہ کس قدر تیزی کے ساتھ
کوئی بادل میرے تپتے جسم پر برسا نہیں
جل رہا ہوں جانے کب سے جسم کی گرمی کے ساتھ
نیند کترا کے گزر جاتی ہے آنکھوں سے نسیمؔ
جاگتا رہتا ہوں اب میں شب کی ویرانی کے ساتھ
غزل
ہاتھ لہراتا رہا وہ بیٹھ کر کھڑکی کے ساتھ
افتخار نسیم