EN हिंदी
ہاتھ آتا تو نہیں کچھ پہ تقاضہ کر آئیں | شیح شیری
hath aata to nahin kuchh pa taqaza kar aaen

غزل

ہاتھ آتا تو نہیں کچھ پہ تقاضہ کر آئیں

شارق کیفی

;

ہاتھ آتا تو نہیں کچھ پہ تقاضہ کر آئیں
اور اک بار گلی کا تری پھیرا کر آئیں

نیند کے واسطے ویسے بھی ضروری ہے تھکن
پیاس بھڑکائیں کسی سائے کا پیچھا کر آئیں

لطف دیتی ہے مسیحائی پر اتنا بھی نہیں
جوش میں اپنے ہی بیمار کو اچھا کر آئیں

لوگ محفل میں بلاتے ہوئے کتراتے تھے
اب نہیں دھڑکا یہ خود سے کہ کہاں کیا کر آئیں

کاش مل جائے کہیں پھر وہی آئینہ صفت
نقش بے ربط بہت ہیں انہیں چہرہ کر آئیں

کتنی آسانی سے ہم اس کو بھلا سکتے ہیں
بس کسی طرح اسے دوسروں جیسا کر آئیں

یہ بھی ممکن ہے کہ ہم ہار سے بچنے کے لیے
اپنے دشمن کے کسی وار میں حصہ کر آئیں

بات ماضی کو الگ رکھ کے بھی ہو سکتی ہے
اب جو حالات ہیں ان پر کبھی چرچا کر آئیں

یہ بتا کر کہ یہ رونق تو ذرا دیر کی ہے
صاحب بزم کے ہیجان کو ٹھنڈا کر آئیں

کیا وجود اس کا اگر کوئی توجہ ہی نہ دے
ہم کہ جب چاہیں اسے بھیڑ کا حصہ کر آئیں