ہانپتی ندی میں دم ٹوٹا ہوا تھا لہر کا
واقعہ ہے یہ ستمبر کی کسی سہ پہر کا
سرسراہٹ رینگتے لمحے کی سرکنڈوں میں تھی
تھا نشہ ساری فضا میں ناگنوں کے زہر کا
تھی صدف میں روشنی کی بوند تھرائی ہوئی
جسم کے اندر کہیں دھڑکا لگا تھا قہر کا
دل میں تھیں ایسے فساد آمادہ دل کی دھڑکنیں
ہو بھرا بلوائیوں سے چوک جیسے شہر کا
آسماں اترا کناروں کو ملانے کے لئے
یہ بھی پھر دیکھا کہ پل ٹوٹا ہوا تھا نہر کا
عیش بے میعاد ملتی پر کہاں ملتی تجھے
میری مٹی کی مہک میں شائبہ ہے دہر کا
غزل
ہانپتی ندی میں دم ٹوٹا ہوا تھا لہر کا
آفتاب اقبال شمیم