ہاں کاہش فضول کا حاصل بھی کچھ نہیں
لیکن حیات بے خلش دل بھی کچھ نہیں
اب سوچ لو قدم ہیں زیاں گاہ شوق میں
کہنا نہ پھر کہ جذبۂ کامل بھی کچھ نہیں
گہرا سکوت چاپ کی آواز بازگشت
رہ میں بھی کچھ نہ تھا سر منزل بھی کچھ نہیں
جز حرص منفعت تہ دریا بھی کچھ نہ تھا
جز وہم عافیت لب ساحل بھی کچھ نہیں
سب جذب آرزو کی تمازت کا کھیل ہے
دل سرد ہو تو گرمئ محفل بھی کچھ نہیں
بدلے تو اک نمونۂ اعراض و احتراز
یوں اس نگہ کی راہ میں حائل بھی کچھ نہیں
گوہرؔ خلا میں گھورتے پھرتے ہو اب کہو
کیا سچ ہے بھولنا اسے مشکل بھی کچھ نہیں

غزل
ہاں کاہش فضول کا حاصل بھی کچھ نہیں
گوہر ہوشیارپوری