ہاں دید کا اقرار اگر ہو تو ابھی ہو
اور یوں ہو کہ دیدار اگر ہو تو ابھی ہو
تقدیر سے ڈرتا ہوں کہ پھر مت نہ پلٹ جائے
تم دل کے خریدار اگر ہو تو ابھی ہو
دیدار کو کل کہہ کے قیامت پہ وہ ٹالیں
اور شوق کا اصرار اگر ہو تو ابھی ہو
بدلا ہوا ہر عہد نیا لاتا ہے پیغام
یہ کیا کہ ہر اقرار اگر ہو تو ابھی ہو
آ لینے تو دو آرزوؔ آزار میں لذت
تم نام سے بیزار اگر ہو تو ابھی ہو
غزل
ہاں دید کا اقرار اگر ہو تو ابھی ہو
آرزو لکھنوی