ہاں دھنک کے رنگ سارے کھل گئے
مجھ پہ تیرے سب اشارے کھل گئے
ایک تو ہم کھیل میں بھی تھے نئے
اس پہ پتے بھی ہمارے کھل گئے
جھیل میں آنکھوں کی تم اترے ہی تھے
اور خوابوں کے شکارے کھل گئے
نرم ہی تھی یاد کی ہر پنکھڑی
پھر بھی میرے زخم سارے کھل گئے
مجھ کو جکڑے تھے کئی بندھن مگر
تیرے بندھن کے سہارے کھل گئے
صلح آخر ہو گئی جھگڑا مٹا
بھید تو لیکن ہمارے کھل گئے
غزل
ہاں دھنک کے رنگ سارے کھل گئے
سوپنل تیواری