حالت حرف کس نے جانی ہے
یہ جہاں خوگر معانی ہے
کیا لگے قیمت قبائے سخن
یہ نئی ہو کے بھی پرانی ہے
ایک دنیا تھی، جس کے ملبے سے
ایک دنیا مجھے بنانی ہے
راہ میں ہے بدن کی اک دیوار
جو مجھے ناخنوں سے ڈھانی ہے
یہ جہاں رقص میں نہیں یونہی
سب مرے خون کی روانی ہے
اور کچھ دن ہے یہ فریب وصال
اور کچھ دن یہ خوش گمانی ہے
سرخ ہو اے مری قمیض سفید
اپنی قیمت مجھے بڑھانی ہے
ہاں طبیعت تو ٹھیک ہے میری
اک ذرا رنج رائگانی ہے
غزل
حالت حرف کس نے جانی ہے
عارف امام