حالت حال میں آداب نہیں بھولتا میں
خود کو بھولوں بھی تو احباب نہیں بھولتا میں
میں ابھی عشق نہیں حالت ایمان میں ہوں
جنگ کرتے ہوئے اسباب نہیں بھولتا میں
جذب کرتی ہوئی خلقت سے محبت ہے مجھے
چاند کو چھوڑیئے تالاب نہیں بھولتا میں
اے مجھے خواب دکھاتے ہوئے لوگو سن لو
میرا دکھ یہ ہے کوئی خواب نہیں بھولتا میں
پارسائی نہیں تنہائی میسر تھی وہاں
سو ترے منبر و محراب نہیں بھولتا میں
غزل
حالت حال میں آداب نہیں بھولتا میں
ندیم بھابھہ