حالات مری راہ میں حائل تو نہیں تھے
اس زندگی میں اتنے مسائل تو نہیں تھے
یہ آج اچانک ہوئی کیوں ہم پہ توجہ
وہ لطف و کرم پہ کبھی مائل تو نہیں تھے
اک دوسرے سے دور نکل آئے ہیں ہم لوگ
ہم بھی کبھی یہ فاصلے حائل تو نہیں تھے
تو نے ہمیں شاید غلط انداز سے سوچا
ہم تیرے تمنائی تھے سائل تو نہیں تھے
اب معتقد گردش حالات ہیں ورنہ
ہم گردش حالات کے قائل تو نہیں تھے
چہرے پہ مسرت کی جھلک خوب تھی لیکن
آثار غم و درد کے زائل تو نہیں تھے
اک کشتۂ حالات کی کچھ آس بندھائیں
لوگوں میں مگر ایسے خصائل تو نہیں تھے
جن کہنہ رسومات میں ہم جکڑے ہوئے ہیں
ان کہنہ رسومات کے قائل تو نہیں تھے
جینا بڑا مشکل تھا مگر پھر بھی جئے عرشؔ
جینے کے لئے اتنے وسائل تو نہیں تھے
غزل
حالات مری راہ میں حائل تو نہیں تھے
عرش صہبائی