حالات اب تو اتنے دشوار ہو گئے ہیں
ہم نیم شب میں اکثر بیدار ہو گئے ہیں
جو لوگ سادہ دل تھے پرکار ہو گئے ہیں
اب آدمی کے رشتے دشوار ہو گئے ہیں
یہ زندگی کی نعمت کس کو نہیں ہے پیاری
مت پوچھ اس سے ہم کیوں بیزار ہو گئے ہیں
عسرت میں جن کا شیوہ کل تک تھا خود فروشی
دولت کے ملتے ہی وہ خوددار ہو گئے ہیں
دشمن کو ہو گیا ہے اندازہ کچھ ہمارا
دشمن سے ہم بھی لیکن ہشیار ہو گئے ہیں
ماتم نہیں مناسب اب جان کے جہاں کا
دشت طلب کے رستے ہموار ہو گئے ہیں
غزل
حالات اب تو اتنے دشوار ہو گئے ہیں
نظیر صدیقی