حال نہ پوچھو روز و شب کا کوئی انوکھی بات نہیں
دن کو کیسے رات کہیں ہم رات بھی اب تو رات نہیں
لگنے کو تو صحن چمن میں دونوں اچھے لگتے ہیں
کانٹوں میں جو اپنا پن ہے پھولوں میں وہ بات نہیں
دل سے بھلا تو دیں ہم ان کو لیکن اس کو کیا کیجے
صدیوں کی روداد بھلانا اپنے بس کی بات نہیں
گلشن گلشن شاخ و شجر پر روز نشیمن جلتے ہیں
کس نے کہا تھا موسم بدلا اگلے سے حالات نہیں
ایک ذرا سی بات پہ کیوں ہے اتنا ہنگامہ ممتازؔ
شیشۂ دل ہی تو ٹوٹا ہے اور تو کوئی بات نہیں
غزل
حال نہ پوچھو روز و شب کا کوئی انوکھی بات نہیں
ممتاز میرزا