حال دل تم سے مری جاں نہ کہا کون سے دن
میرے کہنے کو بھلا تم نے سنا کون سے دن
لذتیں وصل کی کچھ میں نے بیاں کیں تو کہا
آپ کے واسطے دن ایسا ہوا کون سے دن
جب کہا میں نے وہ کیا دن تھے جو ملتے تھے تم
ہو کے انجان عجب ڈھب سے کہا کون سے دن
وصل کی شب ہے ملو آج تو دل کھول کے خوب
اے مری جان یہ جائے گی حیا کون سے دن
رشک آمیز جو کچھ میں نے کہا تو بولے
غیر کے ساتھ مجھے دیکھ لیا کون سے دن
ہر گھڑی دل میں رہا خوف بگڑ جانے کا
تیرے ملنے میں مزا ہم کو ملا کون سے دن
کون سا دن ہے جو بے چین نہیں ہو کے نظامؔ
بے قراری سے نہ اس در پہ گیا کون سے دن
غزل
حال دل تم سے مری جاں نہ کہا کون سے دن
نظام رامپوری