EN हिंदी
حال دل میں سنا نہیں سکتا | شیح شیری
haal-e-dil main suna nahin sakta

غزل

حال دل میں سنا نہیں سکتا

اکبر الہ آبادی

;

حال دل میں سنا نہیں سکتا
لفظ معنیٰ کو پا نہیں سکتا

عشق نازک مزاج ہے بے حد
عقل کا بوجھ اٹھا نہیں سکتا

ہوش عارف کی ہے یہی پہچان
کہ خودی میں سما نہیں سکتا

پونچھ سکتا ہے ہم نشیں آنسو
داغ دل کو مٹا نہیں سکتا

مجھ کو حیرت ہے اس کی قدرت پر
الم اس کو گھٹا نہیں سکتا