حال دل اپنا لکھوں حال تمہارا لکھوں
تو ہی بتلا کہ ترے خط میں میں کیا کیا لکھوں
ان کو اپنانے کی سب کوششیں ناکام ہوئیں
بازیٔ عشق میں اب اپنے کو ہارا لکھوں
جس میں تصویر نظر آتی تھی ہر وقت تری
آئنہ ٹوٹ گیا اب وہ تمہارا لکھوں
گر گریباں ہی سلامت ہے نہ دامن اس کا
کیسی حالت میں ہے دیوانہ تمہارا لکھوں
فیضؔ حالات ہیں جو کچھ بھی کرم ہے اس کا
کیوں نہ ہر حال کو احسان تمہارا لکھوں

غزل
حال دل اپنا لکھوں حال تمہارا لکھوں
محمد فیض اللہ فیض