EN हिंदी
حال بیداری میں رہ کر بھی میں خوابوں میں رہا | شیح شیری
haal-e-bedari mein rah kar bhi main KHwabon mein raha

غزل

حال بیداری میں رہ کر بھی میں خوابوں میں رہا

سید محمد عسکری عارف

;

حال بیداری میں رہ کر بھی میں خوابوں میں رہا
جیسے پیاسا کوئی اک عمر سرابوں میں رہا

مری خوشبو سے معطر تھا گلستان وفا
خار مانند مرا یار گلابوں میں رہا

گفتگو تک رہی محدود ملاقات اپنی
مرا محبوب شب وصل حجابوں میں رہا

اب مجھے خاک نشینی کا شرف حاصل ہے
یہ الگ بات ہے کل تک میں نوابوں میں رہا

پیار ہی پیار تھا تحریر مرے خط میں مگر
جز شکایت نہیں کچھ اس کے جوابوں میں رہا

میں نے ہر حال میں پرواز کا سیکھا ہے ہنر
کٹ گئے پر مرے پھر بھی میں عقابوں میں رہا

عشق ثابت ہوا نقصان کا سودا عارفؔ
صرف گھاٹا ہی محبت کے حسابوں میں رہا