ہائے اس بے خود شباب کا رنگ
لال انگارہ سا شراب کا رنگ
ہو گیا خون حسرت دیدار
دے دیا اشک نے شہاب کا رنگ
اس کی خوش بو گلاب کی خوش بو
رنگ اس شوخ کا گلاب کا رنگ
ستیاناس ہو گیا دل کا
کیا کہوں اس جلے کباب کا رنگ
بجلیاں دشمنوں پہ گرتی ہیں
دیکھ کر میرے اضطراب کا رنگ
وہ سر شام سیر کو نکلے
پڑ گیا زرد آفتاب کا رنگ
اس کے رخ پر نکھر گئی سرخی
اللہ اللہ اس حجاب کا رنگ
ماند ہے رات دن ترے آگے
ماہتاب اور آفتاب کا رنگ
اتنی شوخی صفیؔ کسی میں کہاں
رنگ میں رنگ تو شراب کا رنگ

غزل
ہائے اس بے خود شباب کا رنگ
صفی اورنگ آبادی