ہائے کیسی وہ شام ہوتی ہے
داستاں جب تمام ہوتی ہے
یہ تو باتیں ہیں صرف زاہد کی
کہیں مے بھی حرام ہوتی ہے
شام فرقت کی الجھنیں توبہ
کس غضب کی یہ شام ہوتی ہے
عشق میں اور قرار کیا معنی
زندگی تک حرام ہوتی ہے
ہو کے آتی ہے جب ادھر سے صبا
کتنی نازک خرام ہوتی ہے
یہ تصدق ہے ان کی زلفوں کا
میری ہر صبح شام ہوتی ہے
جب بھی ہوتی ہیں جنتیں تقسیم
حور زاہد کے نام ہوتی ہے
لمحے آتے ہیں وہ بھی الفت میں
جب خموشی کلام ہوتی ہے
پینے والا ہو گر تو ساقی کی
ہر نظر دور جام ہوتی ہے
ہر ادا ہم ادا شناسوں کی
زندگی کا پیام ہوتی ہے
وقت ٹھہرا ہوا سا ہے نوشادؔ
نہ سحر اور نہ شام ہوتی ہے
غزل
ہائے کیسی وہ شام ہوتی ہے
نوشاد علی