حادثات اب کے سفر میں نئے ڈھب سے آئے
کشتیاں بھی نہیں ڈوبی نہ کنارے آئے
بعد مدت یہ جلا کس کے ہنر نے بخشی
بعد مدت مرے آئینے میں چہرہ آئے
اشک پلکوں کی منڈیروں پہ تمنا دل میں
دن ڈھلے لوٹ کے شاخوں پہ پرندے آئے
سارے کرداروں سے جی کھول کے باتیں کر لوں
موڑ کیسا مرے قصے میں نہ جانے آئے
عرش پر روز بگولے سے پھرا کرتے ہیں
دشت کی خاک کو دیوانہ کہاں لے آئے
میں کسی اور تقاضے سے کروں ذکر اس کا
وہ کسی اور سے ملنے کے بہانے آئے
غزل
حادثات اب کے سفر میں نئے ڈھب سے آئے
بکل دیو