EN हिंदी
حادثات اب کے سفر میں نئے ڈھب سے آئے | شیح شیری
hadsat ab ke safar mein nae Dhab se aae

غزل

حادثات اب کے سفر میں نئے ڈھب سے آئے

بکل دیو

;

حادثات اب کے سفر میں نئے ڈھب سے آئے
کشتیاں بھی نہیں ڈوبی نہ کنارے آئے

بعد مدت یہ جلا کس کے ہنر نے بخشی
بعد مدت مرے آئینے میں چہرہ آئے

اشک پلکوں کی منڈیروں پہ تمنا دل میں
دن ڈھلے لوٹ کے شاخوں پہ پرندے آئے

سارے کرداروں سے جی کھول کے باتیں کر لوں
موڑ کیسا مرے قصے میں نہ جانے آئے

عرش پر روز بگولے سے پھرا کرتے ہیں
دشت کی خاک کو دیوانہ کہاں لے آئے

میں کسی اور تقاضے سے کروں ذکر اس کا
وہ کسی اور سے ملنے کے بہانے آئے