گزرے تعلقات کا اب واسطہ نہ دے
گم ہو چکی کتاب جو اس کا پتہ نہ دے
اب تذکرے نہ چھیڑ مرے عہد شوق کے
جو بجھ گئی ہے آگ اسے پھر ہوا نہ دے
کچھ اس قدر فریب سہاروں سے کھائے ہیں
میں گر پڑوں گا خوف سے تو آسرا نہ دے
جس کی جبین شوق پہ لکھا تھا میرا نام
اب دور جا بسا ہے تو شاید بھلا نہ دے
شعلہ جو موجزن ہے محبت کا دل میں آج
ڈر ہے کہ صرصر غم دوراں بجھا نہ دے
گو چل پڑا ہوں دل سے مگر چاہتا ہوں یہ
اٹھ کر مجھے وہ روک لے اور راستہ نہ دے
خالی نہ کوئی دولت اخلاص سے رہے
علویؔ کسی کو بھول کے یہ بد دعا نہ دے
غزل
گزرے تعلقات کا اب واسطہ نہ دے
افضل علوی