EN हिंदी
گزرے جو اپنے یاروں کی صحبت میں چار دن | شیح شیری
guzre jo apne yaron ki sohbat mein chaar din

غزل

گزرے جو اپنے یاروں کی صحبت میں چار دن

اے جی جوش

;

گزرے جو اپنے یاروں کی صحبت میں چار دن
ایسا لگا بسر ہوئے جنت میں چار دن

عمر خضر کی اس کو تمنا کبھی نہ ہو
انسان جی سکے جو محبت میں چار دن

جب تک جیے نبھائیں گے ہم ان سے دوستی
اپنے رہے جو دوست مصیبت میں چار دن

اے جان آرزو وہ قیامت سے کم نہ تھے
کاٹے ترے بغیر جو غربت میں چار دن

پھر عمر بھر کبھی نہ سکوں پا سکا یہ دل
کٹنے تھے جو بھی کٹ گئے راحت میں چار دن

جو فقر میں سرور ہے شاہی میں وہ کہاں
ہم بھی رہے ہیں نشۂ دولت میں چار دن

اس آگ نے جلا کے یہ دل راکھ کر دیا
اٹھتے تھے جوشؔ شعلے جو وحشت میں چار دن