EN हिंदी
گزرنے والی ہوا کو بتا دیا گیا ہے | شیح شیری
guzarne wali hawa ko bata diya gaya hai

غزل

گزرنے والی ہوا کو بتا دیا گیا ہے

عزیز نبیل

;

گزرنے والی ہوا کو بتا دیا گیا ہے
کہ خوشبوؤں کا جزیرہ جلا دیا گیا ہے

زمیں کی آنکھ کا نقشہ بنا دیا گیا ہے
اور ایک تیر فضا میں چلا دیا گیا ہے

اسی کے دم سے تھا روشن سپاہ شب کا علم
وہ چاند جس کو زمیں میں دبا دیا گیا ہے

وہ ایک راز! جو مدت سے راز تھا ہی نہیں
اس ایک راز سے پردہ اٹھا دیا گیا ہے

تمہیں پتا نہیں خانہ بدوش امیدو؟
نیا علاقہ سر جاں بسا دیا گیا ہے

جہاں ہوا تھا بصارت کا قتل عام نبیلؔ
وہاں اک آئنہ خانہ بنا دیا گیا ہے