گزر رہا ہوں سیہ اندھے فاصلوں سے میں
نہ اب ہوں رہ سے عبارت نہ منزلوں سے میں
کہاں کہاں سے الگ کر سکو گے تم مجھ کو
جڑا ہوا ہوں یہاں لاکھ سلسلوں سے میں
قدم ملانے میں سب کر رہے تھے قوتیں صرف
ملا ہوں راہ میں کتنے ہی قافلوں سے میں
میں اس کے پاؤں کی زنجیر دیکھتا تھا بہت
کچھ آشنا نہ تھا اپنی ہی مشکلوں سے میں
عجیب لوگ ہیں کچھ کہہ دو مان لیتے ہیں
ہوا ہوں زیر بہت زود قاتلوں سے میں
کہو تو ساتھ بہا لے چلوں یہ دکھ بھرے شہر
گزر رہا ہوں عجب خستہ ساحلوں سے میں
میں کیوں برائی سنوں دوستوں کی اے بانیؔ
الگ نہیں انہیں کھوٹے کھرے دلوں سے میں
غزل
گزر رہا ہوں سیہ اندھے فاصلوں سے میں
راجیندر منچندا بانی