گزر کر آدمی راہ مصیبت سے سنورتا ہے
قمر کا نور شب کی ظلمتوں میں ہی نکھرتا ہے
بجز درد حیات غم نہیں ملتا کہیں کچھ بھی
بشر دنیائے فانی میں جہاں سے بھی گزرتا ہے
گلوں کی پتیاں جیسے گلوں سے روٹھ جاتی ہیں
دم تنہائی غم کچھ مرا دل یوں بکھرتا ہے
بہ صورت قطرۂ شبنم ہوں میں خار گلستاں پر
مرا دل زحمت مہر درخشاں سے بھی ڈرتا ہے
یہ دیکھا ہے نہیں بے فیض آمد ابر نیساں کی
کوئی انجام ہوتا ہے بشر جو کچھ بھی کرتا ہے
فرشتوں کا گزر جن منزلوں سے غیر ممکن ہے
بشر کی عظمتیں دیکھو وہاں سے بھی گزرتا ہے
نکوہش ناخن ناداں پہ قابو پا ہی جاتی ہے
بڑا پرہیز کرتے ہیں کہیں تب زخم بھرتا ہے
سنبھل اے فرقۂ عشاق اب پھر امتحاں ہوگا
سر چلمن کسی کافر کا پھر گیسو سنورتا ہے
الجھتے ہیں ترے کوچے میں جو مرغ چمن کے پیر
دم پرواز گلشن سے کسی کا دل بھی بھرتا ہے
فنا کرتا ہے پہلے زندگی کی ہر تمنا کو
کہیں تب جا کے انساں پستئ غم سے ابھرتا ہے
اسی باعث وفور غم میں اکثر نازؔ ہنستے ہیں
مصیبت اور بڑھتی ہے جو غم سے جتنا ڈرتا ہے

غزل
گزر کر آدمی راہ مصیبت سے سنورتا ہے
ناز مرادآبادی