گزر گیا انتظار حد سے یہ وعدۂ ناتمام کب تک
نہ مرنے دے گی مجھے ستم گر تری تمنائے خام کب تک
اجل مرا اتنا کام کر دے کہ کام میرا تمام کر دے
رہے کوئی زندگی کے ہاتھوں جہاں میں رسوائے عام کب تک
وہ آئے یا وعدے پر نہ آئے بلا سے قسمت جو کچھ دکھا دے
مگر ہمیں دیکھنا تو یہ ہے کہ آج ہوتی ہے شام کب تک
یہ بحث و تکرار چھوڑ دے آ یہ زہد کا عہد توڑ دے
رہے گی اے مدعی حرمت شراب دنیا حرام کب تک
غزل
گزر گیا انتظار حد سے یہ وعدۂ ناتمام کب تک
فانی بدایونی