EN हिंदी
گزر گئی ہے مجھے ریگ زار کرتی ہوئی | شیح شیری
guzar gai hai mujhe reg-zar karti hui

غزل

گزر گئی ہے مجھے ریگ زار کرتی ہوئی

خورشید اکبر

;

گزر گئی ہے مجھے ریگ زار کرتی ہوئی
وہ ایک مچھلی سمندر شکار کرتی ہوئی

نہ جانے کتنے بھنور کو رلا کے آئے ہے
یہ میری کشتیٔ جاں خود کو پار کرتی ہوئی

وہ ایک ساعت معصوم دل کی پروردہ
مکر گئی ہے مگر اعتبار کرتی ہوئی

جنوں کی آخری لرزیدہ مضمحل سی رات
جھپک گئی ہے ذرا انتظار کرتی ہوئی

یہ کیسی خواہش نادید ہے دوراہے پر
سہم گئی ہے ابھی مجھ پہ وار کرتی ہوئی

لپٹ کے سو گئی آخر شمع فراق کے ساتھ
شب سیاہ ستارے شمار کرتی ہوئی

سفر میں کیسی حرارت قریب تھی خورشیدؔ
اتر گئی ہے مجھے دھار دار کرتی ہوئی